اسلام آباد: سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے 2018 میں بھی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے، تب انتخابی نشان کیسے ملا تھا؟ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اس پر جائیں گے تو چیئرمین سینیٹ کا انتخاب بھی کھل جائے گا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ میری چار قانونی معروضات ہیں، پی ٹی آئی نے قانون کے مطابق انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے پارٹی ٹکٹ پر بیرسٹر گوہر کے بطور چیئرمین دستخط ہیں، ٹکٹ جاری کرتے وقت تحریک انصاف کی کوئی قانونی تنظیم نہیں تھی، پارٹی تنظیم انٹرا پارٹی انتخابات درست نہ کرانے کی وجہ سے وجود نہیں رکھتی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارٹی ٹکٹ 22 دسمبر کو جاری شدہ ہیں، انٹرا پارٹی انتخابات کیس کا فیصلہ 13 جنوری کا ہے تب تک بیرسٹر گوہر چیئرمین تھے۔ وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات 23 دسمبر کو کالعدم قرار دے دیے تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 26 دسمبر کو معطل ہو چکا تھا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ غلطی کہاں سے ہوئی اور کس نے کی ہے یہ بھی بتائیں۔ وکیل سکندر مہمند نے کہا کہ کئی امیدواروں نے پارٹی وابستگی نہیں لکھی اسی وجہ سے امیدوار آزاد تصور ہوگا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اصل چیز پارٹی ٹکٹ ہے جو نہ ہونے پر امیدوار آزاد تصور ہوگا، جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ اس معاملے پر میں اور آپ ایک پیج پر ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پیج پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پر نہیں رہنا۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ بیرسٹر گوہر کے جاری کردہ پارٹی ٹکٹس کی قانونی حیثیت نہیں، صاحبزادہ حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین تھے اور ہیں، صاحبزادہ حامد رضا خود کو پارٹی ٹکٹ جاری کر سکتے تھے، صاحبزادہ حامد رضا نے خود کو بھی پارٹی ٹکٹ جاری نہیں کیا، حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں لکھا کہ ان کا تعلق سنی اتحاد کونسل سے ہے جس کا پی ٹی آئی سے اتحاد ہے، حامد رضا نے پی ٹی آئی کا پارٹی ٹکٹ جمع کرایا تھا۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ریٹرننگ افسر نے حامد رضا کے کاغذات منظور کر لیے تھے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ حامد رضا نے بیان حلفی میں ڈیکلریشن پی ٹی آئی نظریاتی کا جمع کرایا تھا۔
جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ حامد رضا کو آزاد امیدوار قرار دینے سے پہلے کیا ان سے وضاحت مانگی گئی تھی؟ وکیل نے بتایا کہ حامد رضا نے درخواست دے کر شٹل کاک کا انتخابی نشان مانگا تھا، ریکارڈ میں پارٹی ٹکٹ نظریاتی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا ہے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے سوال کیا کہ کاغذات نامزدگی منظور ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی میں تضاد پر کوئی نوٹس کیا گیا تھا؟ وکیل نے بتایا کہ ریٹرننگ افسر اسکروٹنی میں صرف امیدوار کی اہلیت دیکھتا ہے انتخابی نشان کا معاملہ نہیں، حامد رضا خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار قرار نہیں دینا چاہتے تھے، حامد رضا ایک سے دوسری جماعت میں چھلانگیں لگاتے رہے، 14 جنوری سے سات فروری تک تحریک انصاف انٹرا پارٹی انتخابات کروا سکتی تھی۔