مسیحی قوم کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے، یونائیٹڈ کونسل آف چرچز کا حکومت سے مطالبہ
ٹھوس پالیسی مرتب کی جائے اور ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے مسیحی قوم میں پیدا ہونے والا خوف وہراس ختم ہو سکے
اسلام آباد : ملک بھر کے بشپس، پاسٹرز حضرات اور سماجی و سیاسی شخصیات نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کا مسیحی قوم کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے، راولپنڈی میں لوکل انتظامیہ کےبروقت ایکشن سے بڑا سانحہ ہونے سے بچ گیا ، ٹھوس پالیسی مرتب کی جائے اور ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جن سے مسیحی قوم میں پیدا ہونے والا خوف وہراس ختم ہو سکے اور مسیحی قوم پرچھائی دہشت کو کم کیا جاسکے،ایسے عناصر کی تفتیش اعلی ٰدرجے پر کی جائے اور انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جائے، ملک میں پڑھائے جانیوالےنصاب کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نفرتیں کم ہوں ، ایک ایسا قانون بنایا جائے کہ توریت اور انجیل اور زبور کی بے حرمتی کرنے والے بھی سزا کے مستحق ہوں جس طرح قران پاک کی بےحرمتی کرنے والےسزا کے مستحق ہیں، 295 اے بی سی کا غلط استعمال کرنے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ان قوانین پر عمل ہوتا ہوا نظر آنا چاہیئے، نیشنل کرائسس ریسپانس الائنس پاکستان کے زیر اہتمام نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ملک بھر سے آئے ہوئے بشپس، پاسٹرز صاحبان اور سیاسی و سماجی راہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئےپاسٹر سیمسن سہیل کا کہنا تھا کہ گذشتہ روز راولپنڈی میں جو کشیدہ صورتحال بنی تھی اس خوف وہراس میں حکومت نے اپنا بڑا زبردست کردار ادا کیا اور لوکل انتظامیہ نے بڑا بروقت ایکشن لیا اور وہاں کوئی اور بڑا سانحہ ہونے سے بچ گیا اور بروقت ایکشن سے وہاں پر جو خوف وہراس کی فضا تھی اسے ختم کیا گیا ،ہم ڈھوک سیداںراولپنڈی میں حالات کنٹرول کرنے میں جس کسی نےبھی کردار ادا کیاہم ان سب کے تہہ دل سے مشکور ہیں ،نوروز قبل ہم نے ایک مقصد کے لیے میڈیا کی وساطت سےحکومت سےاستدعاکی تھی جس میں مسیحی قوم کے جتنے بھی مسائل تھے خصوصا جڑانوالا کے حوالہ سے جو مسائل تھے ان پر ڈسکس کیا تھا اور درخواست کی تھی جس پر حکومت نے توجہ دی اور ہمارےمطالبات کو انہوں نے مانا اور قبول کیا اور ہماری کافی حد تک تسلی ،ہمدردی اور مالی صورت میں امداد کی ہے جس پر ہم حکومت کےشروع گزار ہیں، جڑانوالہ واقعہ کے بعد سب نے ہمیں بڑا سپورٹ کیا ہے ہر مکتبہ فکر کے لوگ وہاں جا رہے ہیں، مدد کر رہے ہیں اور وہاں کی کرسچن کمیونٹی کو سپورٹ کر رہے ہیں تاہم پورے پاکستان میں مسیحی برادری میں خوف ہراس کی جو لہر دوڑ رہی ہے اس کے لیے کوئی سد باب نہیں کیا جا رہا ہےجس کی وجہ سےمسیحی برادری کو شدید خدشات لاحق ہیں کہ اور ان میںخوف و ہراس بڑھ رہا ہے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے کہ مسیحیوں کے دلوں سے خوف وہراس کو نکالا جا سکےکیونکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو کیسے تحفظ فراہم کرے، اس کے لئے فوری طور پراقدامات اٹھا ئے جانے ضروری ہیں اور اس کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی مرتب کی جائے تاکہ ملک میں یہ جو دہشت چھائی ہوئی ہے اس کو کم کیا جاسکے اس لیے گورنمنٹ کو جلد از جلد اس پرکوئی لائحہ عمل مرتب کرنا ہوگا کوئی پالیسیاں بنانی ہوں گی تاکہ جلد از جلدخوف وہ ہراس کی اس صورتحال سے نکلا جا سکے، اس حوالے سے این جی اوز ادارے انسانی حقوق کی علمبردار تنظیمیں اپنا فعال کردار ادا کریں ،ہماری حکومت وقت سے یہ درخواست ہے کہ مسیحی قوم کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کی جائے تاکہ پوری دنیا میں پاکستان میں رہنے والے اقلیتوں کے لیے تحفظ کیے گئے اقدامات کی تعریف ہو ، ایسے لوگوں کی نشاندہی کی جائے جو وطن عزیز کے دشمنوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور پاکستان کی صفوں میں کھڑے ہو کرملک کوئی نقصان پہنچا رہے ہیں ایسے عناصر کی تفتیش اعلی ٰدرجے پر کی جائے اورجس کسی کا مقصد ملک میں خوف وہر اس پیدا کرنا ہے انہیں کیفرکردار تک پہنچایا جائے،ملک میں پڑحایا جانیوالا نصاب بھی ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ اس میںقابل نفرت مواد ڈالا گیا ہےجس سے نفرت اور تقسیم کی باتیں ہو رہی ہیں اورچھوٹے ذہنوں کو خراب کیا جا رہا ہے لہذاٰنصاب میں بھی تبدیلی کی جائے اور جو ہیٹ مٹیریلز ہیں ان کو ختم کیا جائے تاکہ نفرتیں کم ہوں یہ جائیں، ہم غیر مسلم ہیں مگر ہم سب پاکستانی ہیں ، جب پاکستانی ہیں تو رائٹس کہاں پہ ہیں اگر ہمارے رائٹس ہیں تو وہ کہاں پر ہیں ان رائٹس کو نافذ کیا جائے تاکہ یہ جو ایشوز بن رہے ہیں ان کو ہم روک سکیں،97 سے لے کر اب تک ایک ہی طرح کے جو واقعات دورے اور ایک ہی طرح کی ڈیزائننگ ہمیں نظر اتی ہے کہ سب ایک ہی طرح کے واقعات ہو رہے ہیں تو ان کا وقتی طور پہ حل نہیں نکالنا اس کا مکمل حل نکالنا ہے تاکہ یہ دوبارہ نہ ہوں، ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تو ریت،زبور اور انجیل مقدس بھی اللہ تعالیٰ کی الہامی کتابیں ہیں ، تو ریت اور انجیل مقدس کو جلانے والوں کو ایسے بڑے جرم کا مرتکب کیوں نہیں سمجھا جاتا، انجیل تو ریت زبور کی بےحرمتی کرنے والے سزا کے مستحق ہیں جس طرح قران پاک کی بےحرمتی کرنے والےسزا کے مستحق ہیں لہذا اس قانون کی اشد ضرورت ہے، 295 اے بی سی کا غلط استعمال کرنے کی بھی جرآت کرنے والوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور ان قوانین پر عمل ہوتا ہوا نظر آنا چاہیئے۔