وزارت اطلاعات ونشریاتوفاقی وزارت

وزیراعظم شہباز شریف نے بجٹ میں متعدد شعبوں پر ٹیکس نہیں لگنے دیا، وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ کی پریس کانفرنس

وزیراعظم کا وژن ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا اور اس کے بعد دوبارہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔

اسلام آباد (اے پی پی): وفاقی وزیر اطلاعات، نشریات، قومی ورثہ و ثقافت عطاء اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے بجٹ میں متعدد شعبوں پر ٹیکس نہیں لگنے دیا، کئی ٹیکسوں کو 45 فیصد سے 35 فیصد پر لایا گیا، اس کے لئے انہیں کافی جدوجہد کرنا پڑی، سولر پینلز، ٹیکسٹ بکس، پنشنرز، کھاد، زرعی ادویات، چیریٹی ہسپتالوں اور صحت کے آلات سٹنٹس وغیرہ پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، پٹرولیم لیوی میں گنجائش رکھی گئی ، اسے 60 روپے کی سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، انڈسٹریل ریلیف پیکیج کے تحت انڈسٹری کو 38 روپے فی یونٹ بجلی کی فراہمی بڑا تاریخی ریلیف ہے، اس سے برآمد کنندگان کو بہت مدد ملے گی، ایکسپورٹرز کے صرف منافع پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے، اگر وہ منافع کمائے گا تو ٹیکس لاگو ہوگا، کم از کم اجرت میں 15 فیصد اضافہ کیا گیا جو 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار کر دی گئی ہے، شہباز شریف باہمت وزیراعظم ہیں، وہ ملک کی معاشی سمت درست کرنا چاہتے ہیں، وزیراعظم کا وژن ہے کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا اور اس کے بعد دوبارہ ہمیں آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔ پیر کو یہاں پی ٹی وی ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے علاوہ کچھ ایسی اصلاحات ہیں جو ہم خود کر کر سکتے ہیں، ماضی میں جب شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے پنجاب ریونیو اتھارٹی کا ادارہ بنایا جس سے پنجاب کے ریونیو میں اضافہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی اصلاحات متعارف کرانا حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے جبکہ حکومت نے اپنے طور پر خود کچھ اقدامات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے عملی طور پر حکومتی اخراجات کم کر کے دکھائے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی پریس کانفرنس کے حوالے سے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ 500 ارب روپے ترقیاتی سکیموں میں دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سابق ساتھیوں نے غلط اعداد و شمار پیش کئے شاہد انہوں نے بجٹ صحیح نہیں پڑھا۔ انہوں نے کہا کہ پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ (پی ڈبلیو ڈی) کی تحلیل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے، یہ ادارہ کرپشن کا ذریعہ تھا اور بہت سی ترقیاتی سکیموں کے فنڈ اس محکمے کے ذریعے خرچ کئے جاتے تھے، اس ادارے کی تحلیل سے کئی سو ارب روپے کی بچت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اخراجات میں کمی اسی طرح ہوتی ہے کہ پی ڈبلیو ڈی جیسے محکموں کو تحلیل کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے وزیر خزانہ کی سربراہی میں ڈائون سائزنگ اور رائٹ سائزنگ پر کمیٹی قائم کی ہے جو اس پر کام کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت باتوں پر نہیں عملی اقدامات پر یقین رکھتی ہے، حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کے لئے اقدامات کر رہی ہے، وزیراعظم سمیت کابینہ کے ارکان نہ تنخواہ لے رہے ہیں اور نہ مراعات، کابینہ نے اخراجات میں کمی کے حوالے سے سب سے پہلے خود مثال قائم کی۔ انہوں نے کہا کہ بہت سے محکمے دوسرے محکموں میں ضم ہوں گے جس سے اخراجات میں واضح کمی آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، اس وقت پری کوالیفائیڈ پوٹینشل بڈرز کو پی آئی اے کی سائیٹ کا دورہ کرایا جا رہا ہے اور پی آئی اے کے اثاثے دکھائے جا رہے ہیں۔ امید ہے کہ اگست تک یہ کام مکمل ہو جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ سٹیٹ اون انٹرپرائزز کی نجکاری میں تیزی آئی ہے، شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل مسلم لیگ (ن) کے دور میں وزیراعظم اور وزیر خزانہ کے عہدوں پر رہے ہیں، مفتاح اسماعیل جب وزیر خزانہ تھے تو اس وقت مہنگائی بہت زیادہ تھی، آج اس میں واضح کمی ہوئی ہے جو پچھلے سال 38 فیصد کی نسبت اس سال 11 فیصد پر آ گئی ہے، انہیں ڈائون سائزنگ، رائٹ سائزنگ، مہنگائی میں کمی جیسے اقدامات کی تعریف کرنی چاہئے تھی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ایف بی آر کا اس مرتبہ 13 ٹریلین ریونیو وصول کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا۔ وزیراعظم نے خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے ملنڈا گیٹس فائونڈیشن کے ادارے کار انداز کے ذریعے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر کام کا آغاز کیا، مکینزی کارپوریشن ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر کام کر رہی ہے جس پر حکومت کا ایک روپیہ خرچ نہیں ہو رہا، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن میں کئی سو ارب روپے بچائے گئے، اس اقدام کو سراہا جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ نجکاری، ڈیجیٹلائزیشن، رائٹ سائزنگ، ڈائون سائزنگ وہ اقدامات ہیں جن سے معیشت مثبت سمت میں آگے بڑھے گی۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم نے بجٹ میں متعدد شعبوں پر ٹیکس نہیں لگنے دیا اور اس کے لئے انہیں کافی جدوجہد کرنا پڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی ذاتی کاوشوں سے سولر پینلز، ٹیکسٹ بکس، پنشنرز، کھاد، زرعی ادویات، چیریٹی ہسپتالوں اور صحت کے آلات پر کوئی ٹیکس نہیں عائد کیا گیا۔ پٹرولیم لیوی میں گنجائش رکھی گئی جسے 60 روپے کی سطح پر برقرار رکھا گیا ہے، اس میں 10 روپے کا اضافہ ابھی لاگو نہیں کیا گیا۔ انڈسٹریل ریلیف پیکیج کے تحت انڈسٹری کو 38 روپے فی یونٹ بجلی کی فراہمی بڑا تاریخی ریلیف ہے، اس انڈسٹریل پیکیج سے برآمد کنندگان کو بہت مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ صرف ایکسپورٹرز کے منافع پر ٹیکس عائد کیا گیا ہے، اگر کوئی ایکسپورٹر منافع نہیں کمائے گا تو اسے ٹیکس نہیں دینا پڑے گا، اس کے علاوہ کم از کم اجرت میں 15 فیصد اضافہ کر کے اسے 32 ہزار سے بڑھا کر 37 ہزار کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف باہمت وزیراعظم ہیں اور وہ معیشت کی سمت ٹھیک کرنا چاہتے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ قوم خوشحال اور خودمختار ہو۔ صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی کم از کم اجرت کے حوالے سے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ اس ضمن میں پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن اور آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی سے بات ہوئی ہیں، میڈیا ورکرز اور رپورٹرز کے حوالے سے کم از کم اجرت کے قانون کا اطلاق ہونا چاہئے اور اگر ان کے واجبات ہیں تو وہ بھی ادا ہونے چاہئیں۔ انہوں نے بتایا کہ پی بی اے اور اے پی این ایس نے یقین دہانی کرائی ہے کہ رپورٹرز اور میڈیا ورکرز کا استحصال نہیں ہوگا جس پر ان کے مشکور ہیں۔ تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکس کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات عطاء اللہ تارڑ نے کہا کہ زیادہ تنخواہ وصول کرنے والوں پر ٹیکس لگایا گیا ہے، ایک لاکھ روپے تنخواہ والے پر 1200 روپے کا ٹیکس لگایا گیا ہے جس کی تنخواہ ایک لاکھ روپے ہے ان کو مجموعی طور پر 2400 روپے یا 2500 روپے ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت جہاں ڈائون سائزنگ، پرائیویٹائزیشن اور ڈیجیٹلائزیشن کر رہی ہے، وہاں حکومت یہ اقدامات بھی اٹھا رہی ہے، وزیراعظم کا وژن ہے کہ ملک کی معیشت کو درست سمت میں لایا جائے، اس وقت ہمارا تجارتی خسارہ کم ہوا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر جو عمران خان کے دور میں صرف 15 دن کے تھے، اب دو ماہ کے لئے موجود ہیں، زرمبادلہ کے ذخائر 9 ارب سے تجاوز کر گئے ہیں، آئی ٹی برآمدات میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے، سٹاک ایکسچینج میں روزانہ کی بنیادوں پر تیزی دیکھی جا رہی ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ بجٹ معیشت کے استحکام کی جانب مثبت قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بزنس کمیونٹی اور تاجروں نے بجٹ کو قبول کیا ہے۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ وزیراعظم کا وژن ہے کہ کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا اور اس کے بعد آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ نہیں جانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کی بحالی اور ترقی کے لئے جو ممکن ہوا اقدام اٹھایا جائے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ عوام کو نان فائلر سے فائلر بننا ہوگا، ٹیکس نیٹ میں اضافہ ضروری ہے، یہ روش ختم کرنا ہوگی کہ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کا بوجھ ٹیکس ادا کرنے والے اٹھائیں۔ انہوں نے کہا کہ فائلرز کی تعداد میں اضافے سے ٹیکس بیس بڑھے گا، آنے والے مہینوں میں معیشت میں مزید بہتری آئے گی۔ انہوں نے کہا کہ اشرافیہ پر ٹیکس عائد کئے گئے ہیں، اسلام آباد میں بڑے فارم ہائوسز اور پراپرٹیز موجود ہیں، وزیراعظم نے ضروری سمجھا کہ فارم ہائوسز اور بڑے گھروں پر ٹیکس لگایا جائے، اسلام آباد میں سوا ارب روپے مالیت تک کے گھر موجود ہیں، جو شخص ایسے گھر خریدنے کی حیثیت رکھتا ہے اسے ٹیکس بھی اسی حساب سے دینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں جہاں فسکل سپیس دستیاب ہوگی، ریلیف دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ معیشت کی بہتری سب چاہتے ہیں لیکن ٹیکس کی ادائیگی ہر ایک نہیں چاہتا، فائلرز کی تعداد میں اضافہ ہوگا تو ٹیکس بیس بڑھے گا اور ٹیکس بیس بڑھنے سے ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن ہوگی جس سے ٹیکس کلیکشن کا موثر نظام بنے گا اور ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تجارتی خسارہ کم ہوا ہے، سٹاک ایکسچینج میں تیزی ریکارڈ ہوئی ہے، مہنگائی میں واضح کمی ہوئی ہے، کم از کم اجرت کو بڑھانے میں وفاقی حکومت کو سبقت حاصل ہے، تمام پرائیویٹ اداروں سے درخواست ہے کہ وہ اس پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں گریڈ 1 سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے، پنشنرز پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے دو دوستوں نے بات کی ان کی خدمت میں بھی گذارش ہے کہ آپ کا اس سے پہلے بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں بڑا مثبت کردار رہا ہے، آپ کو حکومت کی اچھے اقدامات کو سراہنا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت بنانا ان کا حق ہے مگر انہیں اعتراض کس بات پر ہے، کیا انہیں ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن پر اعتراض ہے یا پی آئی اے کی نجکاری پر، کیا انہیں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے پر اعتراض ہے؟ یا سولر پینلز، میڈیکل آلات پر ٹیکس نہ لگنے پر؟ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کا وژن ہے کہ ملک میں متوسط طبقے کی سپورٹ کی جائے، اشرافیہ پر ٹیکس لگایا جائے، اس طرف ہم بڑھ رہے ہیں، ٹیکس نیٹ کو موثر اور وسیع بنایا جا رہا ہے جو استثنیٰ دیئے گئے ہیں وہ بڑی سوچ سمجھ کر دیئے گئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ بہت جلد معیشت میں مزید بہتری آئے گی جس طرح حکومت نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا اسی طرح معیشت بہتر ہوگی اور پاکستان خودمختار اور ترقی یافتہ ملک بنے گا۔ وفاقی وزیر نے کہا کہ ٹیکس دینا ہر پاکستانی پر لازم ہے، جن طبقات پر ٹیکس لگایا گیا ہے وہ ٹیکس کی ادائیگی کریں، اس کے لئے موثر نظام وضع کیا گیا ہے، کوشش کی گئی ہے کہ اشرافیہ پر زیادہ ٹیکس لگے اور غریب عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم اجرت میں اضافے پر عمل درآمد کے لئے اپنا کردار ادا کریں گے۔ صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں کرپشن میں خاطر خواہ کمی آئی ہے، ان کی پرائیویٹائزیشن کے حوالے سے کچھ دنوں میں مزید پیشرفت ہوگی، ان کے بورڈز کو تحلیل کیا جائے گا اور پرائیویٹ سیکٹرز سے بورڈ بنائے جائیں گے جن میں ماہر انجینئرز اور ٹیکنیشنز کو لایا جائے گا۔ اس کے بعد ہی ڈسکوز منافع بخش ادارے بنیں گے۔ وزیر توانائی بجلی کے بلوں اور توانائی کے بارے میں کل تفصیلی بریفنگ دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ شاہد خاقان عباسی اور مفتاح اسماعیل کی پارٹی کیلئے بہت خدمات ہیں، انہوں نے جیلیں بھی کاٹی ہیں، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں لیکن نواز شریف اور شہباز شریف نے ہمیشہ وضع داری کا مظاہرہ کیا اور انہیں ہمیشہ عزت اور احترام دیا۔ انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعت بنانا ہر ایک کا حق ہے لیکن حقائق کو مسخ کرنا حق نہیں، آج حقائق کو مسخ کیا گیا اور کہا گیا کہ 500 ارب روپے ارکان قومی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز کے لئے دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈبلیو ڈی کی تحلیل، پی آئی اے کی نجکاری، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن جیسے اقدامات کی تعریف کرنی چاہئے تھی۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پچھلے سال حالات بہت مشکل تھے، اس سال مہنگائی میں واضح کمی آئی ہے، فیول پرائس میں پچھلے ایک ماہ میں 30 سے 35 روپے کمی کی گئی، یہ عالمی مارکیٹ سے منسلک ہیں، مہنگائی کا بہت بڑا لنک روپے کے استحکام سے ہے، کرنسی جتنی ڈی ویلیو ہوگی اتنی مہنگائی بڑھے گی۔ پچھلے دور میں روپے کی قدر میں عدم استحکام سے بہت بڑا نقصان ہو رہا تھا، پی ڈی ایم دور میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی سطح مستحکم رہی۔ سمگلنگ کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھائے گئے۔ انہوں نے کہا کہ آج بھی سمگلنگ کی روک تھام کی مہم جاری ہے، اس کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ ٹیکس دینا قومی خدمت میں شامل ہے، ٹیکس کی ادائیگی ہوگی تو معیشت آگے بڑھے گی۔ ایک سوال کے جواب میں وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان قابل احترام سیاستدان ہیں، الیکشن کے حوالے سے اگر ان کے تحفظات ہیں تو الیکشن ٹربیونلز اور قوانین موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سیاست میں مذاکرات اور پارلیمان کے ذریعے بات چیت سے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اس وقت ملک میں عام انتخابات کی نہ گنجائش ہے نہ جواز، الیکشن 2029 میں اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کفایت شعاری پر مکمل طور پر کاربند ہیں، کفایت شعاری ان کی ہمیشہ پالیسی رہی ہے، کفایت شعاری سے اچھا پیغام جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کم از کم اجرت میں اضافے اور اشرافیہ پر ٹیکس منتقل ہونے سے بہت بڑا فرق پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ سوچ اور نیت ہے کہ ٹیکس دینا ہے تو سب نے دینا ہے، پوری دنیا میں کاروباری طبقہ ٹیکس ادا کرتا ہے، ہمارے ملک میں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ رئیل اسٹیٹ کے شعبہ پر عائد کئے گئے ٹیکس پر اعتراض کیا جاتا ہے لیکن اس شعبہ میں کیش کی سرکولیشن بہت زیادہ ہے، اس لئے رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ افہام و تفہیم سے معاملات حل ہونے چاہئیں اور اتحاد و اتفاق کو برقرار رہنا چاہئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button