اسلامی مالیاتی نظام کے اجرا اور تشکیل کی ذمہ داری ریاست اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو قبول کرنی چاہئے
انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ، پالیسی ساز حلقوں، نگران اداروں، میڈیا، علماء اور سیاسی جماعتوں کو آمادگی دکھاتے ہوئے اسلامی مالیاتی نظام کو اپنانے کی ذمہ داری لینی ہوگی. محمد فرخ رضا (سی ای او) اسلامک فنانس ایڈوائزری اینڈ ایشورنس سروسز (سربراہ) آئی ایف این سروسز
اسلام آباد : پاکستان اپنی معیشت اور مالیاتی نظام کو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر استوار کر سکتا ہے، بشرطیکہ ریاست اور تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز اس مقصد کے لیے مکمل آمادگی اور ہم آہنگی ظاہر کریں۔ انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ، پالیسی ساز حلقوں، نگران اداروں، میڈیا، علماء اور سیاسی جماعتوں کو آمادگی دکھاتے ہوئے اسلامی مالیاتی نظام کو اپنانے کی ذمہ داری لینی ہوگی ۔ ان خیالات کا اظہار برطانیہ میں قائم اسلامک فنانس ایڈوائزری اینڈ ایشورنس سروسز (IFAAS) کے سی ای او اور آئی ایف این سروسز کے سربراہ محمد فرخ رضا نے ‘روڈ میپ فار کنورژن ٹورڈز اسلامک فائنینشل سسٹم ان پاکستان: انیبلنگ مائنڈسیٹ اینڈ سٹریٹیجیز’ کے موضوع پر ایک تفصیلی پریزنٹیشن کے دوران کیا، جو انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز )آئی پی ایس(کے زیرِ انتظام پاکستانی معیشت کی اسلامائزیشن پر جاری ایک تحقیقی منصوبے کے جزو کے طور پر منعقد ہوئی۔مقرر نے مالیاتی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق بدلنے کے لئے حکومتی پالیسیوں اور قوانین کی ضرورت پر زور دیا، اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ایسے قوانین اور پالیسیاں بنانے کی تجویز دی جو اس حوالے سے قانونی فریم ورک کی تشکیل میں معاون ثابت ہو سکیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسلامی مالی طریقوں کی سالمیت برقرار رکھنے کے لیے مضبوط ریگولیٹری نگرانی، کارپوریٹ اور شریعہ گورننس کےقوانین، اسٹیک ہولڈرز کی صلاحیت سازی کے لیے تربیتی اقدامات، اور عوامی آگاہی میں اضافہ اسلامی مالیات کی مکمل فہم پیدا کرنے کے لئے اہم ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ اس تشکیل میں سکوک جیسے خودمختار فنڈنگ ٹولز ، مالیاتی اداروں کو اسلامی اصولوں کے مطابق ترتیب دینا ، اور اسلامی فنڈز کو ملک کی اقتصادی ترقی کی ضروریات کے ساتھ مربوط کرنا شامل ہے۔ رضا نے کہا کہ موجودہ چیلنجز کے باوجود، پاکستان میں اسلامی مالی نظام قائم کرنا ممکن ہے ۔ اسلامی مالیاتی صنعت زبردست ترقی حاصل کر سکتی ہے۔ اس کے لیے لگن، مربوط کوششوں اور واضح منصوبہ بندی کے ساتھ رکاوٹوں کو دور کرنا ہوگا۔سود سے پاک نظام کے کامیاب نفاذ میں اسٹیک ہولڈرز کے اہم کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے ملائیشیا کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا میں اسلامی فنانس انڈسٹری کو ترقی دینے اور مالیاتی شمولیت حاصل کرنے میں اسٹیک ہولڈرز بالخصوص مذہبی اسکالرز کی طرف سے اسلامی مالیاتی اصولوں کی متفقہ قبولیت کلیدی عنصر رہی ہے۔ ۲۰۱۵ میں رضا اور ان کی ٹیم نے انڈونیشیا کے اسلامی مالیات کو مضبوط بنانے کے لیے تبادلوں، اہداف کا خاکہ، ایکشن پلان، ٹائم لائنز، ملکیت، نگرانی اور ٹیسٹنگ پروٹوکول کے لیے ایک قومی ماسٹر پلان تشکیل دیا۔ اس منصوبے کو انڈونیشیا کی پارلیمنٹ سے منظوری کے بعد ایک صدارتی حکم نامے کے ذریعےٹھوس اقدامات کے ساتھ حرکت میں لایا گیا۔ پانچ سال بعد، اسلامک فنانس کا حصہ دگنا ہوگیا۔ آنے والے سالوں میں اس میں مزید ۱۰ سے ۲۰ فیصد تک اضافے کی امید ہے۔ اس بات کو اجاگر کرنا خاص طور پر ضروری ہے کہ انڈونیشیا کے صدر نے خود اس منصوبے میں گہری دلچسپی لی، ذاتی طور پر اس کی پیشرفت کی نگرانی کی اور بالآخر ماسٹر پلان کی کامیابی میں اپنا حصہ ڈالا۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کو اسلامی معیشت اور مالیاتی شمولیت کی ترقی کے لیے سازگار ماحول بنانے کے لیے حکومتی اداروں، صنعت کاروں، میڈیا، مذہبی اسکالرز اور ریگولیٹرز سمیت اسٹیک ہولڈرز کی واضح رضامندی اور تعاون کی ضرورت ہے۔انہوں نے زور دیا کہ اسلامی بینکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بڑے پیمانے پر آگاہی پیدا کریں اور عوام کے ذہنوں سے اسلامی بینکاری کے طریقوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو دور کریں، یہ کام صرف علمایا حکومت کے ذریعے حاصل نہیں کیا جا سکتا۔رضا نے مطالبہ کیا کہ پاکستان میں اسلامی بینکوں اور دیگر مالیاتی اداروں کو ایک انجمن تشکیل دینا چاہیے جو اپنی مارکیٹنگ اورسی ایس آر)کارپوریٹ سماجی زمہ داری(بجٹ کے ذریعے اسلامی معاشی نظام اور مالیاتی طریقوں پر عوامی تعلیم کے لیے فنڈز مختص کرے، اجتماعی شبہات کو دور کرے، اور اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اسلامی سماجی مالیاتی صلاحیت کو آگے بڑھائے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ صنعت بڑے پیمانے پر آگاہی پیدا کرنے اور اس مسئلے پر پالیسی حلقوں کو حساس بنانے کے لیے تسلی بخش کام نہیں کر رہی ہے۔مسلم دنیا میں غربت کے خاتمے کے لیے اسلامی سماجی مالیات کے طریقوں میں حالیہ پیش رفت پر بات کرتے ہوئے رضا نے پاکستان میں روایتی علماکے رجعت پسند پر افسوس کا اظہار کیا جن میں معاشرے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے اجتہاد کی تحریک کا فقدان ہے۔ اس کے لیے ایسے پروگراموں کی ضرورت ہے جس میں علمائے کرام کو شامل کیا جائے تاکہ وہ اس شعبے میں بہترین کارکردگی ، آگاہی اور صلاحیت سازی کی مہمات کرنے والے ممالک کے ساتھ بات چیت کریں۔ ان پروگراموں کو مختلف ممالک میں اسلامی مالیاتی مصنوعات سے متعلق مختلف فتاویٰ پر بات چیت کی سہولت بھی فراہم کرنی چاہیے، تاکہ ان کے طریقوں سے فائدہ حاصل کیا جائے ۔