آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کیا جائے، سراج الحق
اسلام آباد : امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ آئی پی پیز کے معاہدوں پر نظر ثانی کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کیا جائے، ہم اس معاملے کو سپریم کورٹ لے کر جائیں گے، کسی آڈٹ رپورٹ میں ان معاہدوں کا ذکر نہیں، قوم کو معلومات دی جائیں کہ مہنگے معاہدے کس نے کیے، تمام منصوبے سو فیصد سیاسی فوائد کے لیے لگائے گئے، ذمہ داران قومی مجرم، کڑا احتساب کیا جائے۔ پاکستان میں کوئلہ موجود، درآمد کیوں ہوتا ہے؟ درآمدی کوئلے سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے ساحل سمندر کے قریب لگانے کی بجائے ہزاروں میل دور لگائے گئے، ٹرانسپورٹیشن چارجز کی مد میں اربوں خرچ ہوتے ہیں۔ امریکی پریشر پر ایران پاکستان گیس پائپ لائن مکمل نہیں کی جا رہی، جہاں سے ہمیں سستی توانائی حاصل ہو سکتی ہے، ہر حکومت ملکی فیصلوں کے لیے آئی ایم ایف اور امریکا کی طرف دیکھتی ہے، بجلی کے بلوں کی قسطوں میں ادائیگی کے لیے بھی نگران حکومت کو آئی ایم ایف نے اجازت نہیں دی، حکمرانوں نے پاکستانیوں کو غلام قوم بنا دیا۔ کرپٹ حکمران اشرافیہ نے ملک کے پورے سسٹم کو یرغمال بنایا ہے، ان ظالموں کا کوئی احتساب نہیں کرسکا، اب قوم کے پاس کوئی چارہ نہیں، مہنگائی اورظلم برداشت کرتے کرتے گھروں میں سسکتے رہیں، مرجائیں یاکرپٹ نظام سے جان چھڑانے کے لیے جماعت اسلامی کی پرامن جمہوری جدوجہدمیں شامل ہوجائیں۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلتی جب تک وہ خود اپنی حالت بدلنے کو تیار نہ ہو۔ مہنگی بجلی، پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ اور جان لیوامہنگائی کے خلاف احتجاجی تحریک کے دوسرے مرحلے میں چاروں گورنر ہاؤسز کے سامنے دھرنے دیں گے،عوامی حقوق کی جدوجہد بھرپور طریقے سے جاری رہے گی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اسلام آباد میں قومی توانائی کانفرنس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ ”بجلی بحران، اسباب، اقدامات اور حل“ کے عنوانات کے تحت ہونے والی کانفرنس میں ملک کے نامور ماہرین توانائی، سینئر صحافیوں نے شرکت کی جن میں سابقہ ڈین کنگ فیصل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر سید آفاق حسین، انجینئر اخلاق احمد، انجینئر صلاح الدین رفیع، انجینئر ارشد حسین عباسی، ڈاکٹر فیاض احمد، ڈاکٹر محمد بشیر لاکھانی، حامد میر، نائب امیر جماعت اسلامی میاں محمد اسلم و دیگر شامل تھے۔
سراج الحق نے کہا کہ بجلی چوری ختم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، چوری شدہ بجلی کا بوجھ غریب عوام پر کیوں ڈالا جا رہا ہے؟ 220 ارب روپے سے زیادہ مفت بجلی حکمران اشرافیہ استعمال کرتی ہے،500ارب بجلی چوری ہوتی ہے، اتنے ہی لائن لاسز ہیں۔ ہر پاکستانی اصل استعمال ہونے والی بجلی کا بل دینے کو تیار ہے، چوروں کی چوری شدہ بجلی کے بل غریب کیوں برداشت کریں؟ حکومت کی نااہلی کا بدلہ عوام سے کیوں لیا جا رہا ہے؟ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ فوری واپس لیا جائے، طاقتور کمپنیوں اور افراد نے 4 کھرب اور 30 ارب سے زیادہ قرضے لیے اور پھر معاف کروائے جس کا کیس آج تک سپریم کورٹ میں التوا کا شکار ہے۔
امیر جماعت نے کہا کہ افسوس ہے بجلی کے بل کو لوگ موت کا پروانہ سمجھتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ جماعت اسلامی نے مہنگائی کے مسئلے کو سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں میں اٹھایا، ہم نے عوامی سطح پر اس ایشو کو اجاگر کیا۔ احتجاج کے ساتھ ساتھ توانائی پر کانفرنس کے ذریعے ہم نے توانائی بحران سے نکلنے کے لیے آج ملک کے نامور ماہرین کواسلام آباد میں جمع کیا۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان صرف سولر سسٹم سے ہم 3 لاکھ 44 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر سکتا ہے۔ صرف خیبرپختونخوا سے پن بجلی پیدا کر کے پورے ملک کو سستی ترین بجلی فراہم کی جا سکتی ہے، ہمارے پاس ونڈ پاور، اٹامک پاور کے ساتھ ساتھ کئی دیگر سستے آپشنز موجود ہیں۔ ہم آج بھی سسٹم ٹھیک کریں تو 6 روپے فی یونٹ کے حساب عوام کو بجلی فراہم کی جا سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ 1994ء میں واپڈا تقسیم کر کے پاور سیکٹر کو آئی پی پیز کے حوالے کرنا ملک کے ساتھ بڑی زیادتی تھی۔ آج کا معاشی بحران جنگ سے بھی سنگین ہے۔ حکومت نے بجلی کے بعد پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر دیا، روس سے سستے تیل کو ڈھنڈورا پیٹنے والے بتائیں کہ وہ تیل کہاں گیا؟پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ سے اشیائے خورونوش کے ریٹ بھی بڑھ رہے ہیں، عوام کے لیے سانس مشکل ہو گیا۔
اس موقع پر ماہرین نے ملک میں پن بجلی، سولر سسٹم اور دیگر کلین ذرائع سے بجلی پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا، انھوں نے ٹرانسمیشن سسٹم کو بہتر بنانے، بجلی چوری روکنے کے لیے سخت اقدامات کی حمایت کی۔ ماہرین کے مطابق توانائی سیکٹر کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو بارہا تجاویز دی گئی مگر ان پر کبھی کسی نے کان نہیں دھرا، پالیسیوں کی تشکیل سازی اور ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا، ملک میں بجلی پیداوار کا45فیصد انحصار آئی پی پیز پر ہے، بقیہ 25 فیصد ہائیڈل اور 10 فیصد حکومت کے تھرمل پاور پلانٹ سے حاصل ہوتی ہے، عجیب اتفاق ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر میں تھرمل پاور پراجیکٹ لگانے تھے تو حکومتی کارخانوں پر پابندی کیوں لگائی گئی۔ 2023ء کی رپورٹ کے مطابق 55 فیصد بجلی آئی پی پیز سے اور 45فیصد ملکی ذرائع سے لی گئی، 1980ء کی دہائی میں ہائیڈل سے فی یونٹ پیداوار دو پیسے اور تھرمل پر چوبیس پیسے خرچ آتا تھا، آج بھی یہی ریشو برقرار ہے۔ سابقہ حکومتوں کو علم ہونے کے باوجود ہائیڈل پاور پلانٹس نصب نہیں کیے گئے اور کرپشن اور کک بیکس کے عوض درآمدی فیول کے کارخانوں کو ترجیح دی گئی، یہ سب لوگ قومی مجرم ہیں۔ ماہرین نے آپی پیز کے ساتھ معاہدوں کی نظر ثانی اور انہیں عالمی عدالت میں لے جانے کی تجویز پیش کی۔ واپڈا نے گزشتہ دس سالوں میں سستی بجلی پیدا کرنے کا کوئی پراجیکٹ شروع نہیں کیا، سستی بجلی پیدا کرنے کی سوفیصد گنجائش موجود ہے۔ آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے معاہدے بھی سامنے لائے جائیں۔